Friday 28 February 2020

ٹوٹا پھوٹا نظر آنے والا لیکن مہارت سے بنایا گیا فرنیچر

اگر تصویریں دیکھ کر آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ٹوٹا پھوٹا فرنیچر ہے تو ایک بار پھر غور سے دیکھیے… یہ ٹوٹا ہوا فرنیچر نہیں اور نہ ہی یہ فوٹو شاپ کی کارستانی ہے، بلکہ یہ نیوزی لینڈ کے ایک بڑھئی کے بنائے ہوئے شاہکار ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہے ہیں اور شوقین لوگ انہیں منہ مانگے داموں خرید بھی رہے ہیں۔

خبر کچھ یوں ہے کہ آک لینڈ، نیوزی لینڈ کے ایک فارغ البال بڑھئی ہینک ورہوف صاحب نے ریٹامنٹ کے بعد فارغ بیٹھنا گوارا نہیں کیا بلکہ اپنا شوق پورا کرنے کی ٹھان لی۔
انہیں عجیب و غریب فرنیچر بنانے کا بہت شوق تھا، اس لیے وہ اپنے گھر میں بنی ہوئی ورکشاپ میں گھس جاتے اور لکڑیوں کو انوکھے طریقے سے جوڑ کر ایسی الماریوں میں تبدیل کر دیتے جو بظاہر ٹوٹی پھوٹی دکھائی دیتیں لیکن درحقیقت وہ مکمل، سالم اور درست حالت میں ہوتیں۔
انہوں نے اپنے ہنر کے نمونوں کی کچھ تصاویر آن لائن خرید و فروخت کرنے والی ویب سائٹس پر بھی رکھیں جنہیں انوکھی چیزوں سے دلچسپی رکھنے والوں نے خریدا۔
لیکن ہینک ورہوف کی مقبولیت تب شروع ہوئی جب ان کی بیٹی نے فیس بُک پر ایک پیج بنایا جس پر اس عجیب و غریب فرنیچر کی تصویریں لگانا شروع کردیں۔ یہ پیج 21 فروری 2020ء کے روز بنایا گیا اور صرف ایک ہفتے کے اندر اندر اسے پسند کرنے والوں کی تعداد 90 ہزار کے قریب پہنچ گئی۔
یہاں آنے والے لوگ اظہارِ حیرت کرنے کے ساتھ ساتھ ورہوف کی مہارت پر داد بھی دے رہے ہیں۔
اپنے کام کے بارے میں ورہوف کا کہنا ہے کہ پہلے وہ کسی بھی الماری کو کاغذ پر ڈیزائن کرتے ہیں اور پھر لکڑیوں کو اسی حساب سے کاٹ کر جوڑتے ہیں اور الماری کو آخری شکل دیتے ہیں جس میں انہیں بعض اوقات 100 گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں۔

زمین کا ایک اور چاند دریافت لیکن جسامت چھوٹی کار جتنی


شاید زمین کا ایک اور ننھا منا چاند اور بھی ہے لیکن یہ بالکل نیا ہے اور باقاعدہ زمین کے گرد چکر کاٹ رہا ہے۔

ایری زونا میں واقع کیٹالینا اسکائے سروے کے دوران سب سے پہلے ماہرین نے ایک آسمانی پتھر دیکھا جو بہت مدھم تھا اور آسمان پر دیگر اجسام کے مقابلے میں تیزی سے حرکت پذیر تھا۔ اگلے چند روز میں زمین کے مختلف حصوں پر واقع رصدگاہوں نے اسے غور سے دیکھا۔
اسے 2020 سی ڈی تھری کا نام دیا گیا اور اس کے مدار اور گردش کا پتا لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ ثقلی ڈور کے ذریعے یہ زمین سے بندھا ہے اور گزشتہ تین برس سے زمین کے گرد گھوم رہا ہے لیکن اس کا مدار بہت ہی بیضوی ہے۔
خلا میں چھوٹے اجسام پر نظر رکھنے والے ادارے، ’مائنر پلانیٹ سینٹر‘ نے اس پر تحقیق کی ہے اور اس کی دریافت کا اعلان بھی اسی ادارے نے کیا ہے۔ ادارے کے مطابق یہ کوئی مصنوعی شے نہیں بلکہ ایک چھوٹا شہابیہ (ایسٹرائڈ) ہے جو گھومتے ہوئے زمین کی کشش کا اسیر ہوگیا ہے اور زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔
چھوٹا جزوقتی چاند
یہ دوسرا شہابیہ ہے جو زمین کے گرد مدار میں چکر لگارہا ہے۔ اس سے قبل 2006 آر ایچ 120 نامی ایک اور جرمِ فلکی زمین کے گرد گھومنے لگا تھا۔ لیکن ستمبر 2006ء سے جون 2007ء تک زمین کا قیدی رہنے کے بعد یہ ثقل سے آزاد ہوکر کہیں دور چلا گیا تھا۔
محتاط اندازے کے مطابق نئے چاند کی جسامت بہت چھوٹی ہے شاید یہ دو سے ساڑھے تین میٹر طویل ہے جو ایک گاڑی کا سائز ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ زمین کے خوبصورت چاند کے برابر نہیں اور ہماری زمین کے گرد 47 روز میں ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ اس کا مدار ہمارے اپنے چاند سے بھی پرے ہیں۔
فلکیاتی ماہرین کا اصرار ہے کہ اس کا مدار بھی مستحکم نہیں اور جلد ہی یہ زمین کو چھوڑ کر دور ہٹ جائے گا۔ توقع ہے کہ اپریل میں یہ زمینی ثقل کا حصہ نہیں رہے گا۔

کورونا وائرس سے متعلق چند بنیادی سوالات اور ان کے جواب

دنیا میں جیسے جیسے کووِڈ-19 نامی کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے عام آدمی کے ذہن میں اس بیماری کے بارے میں نت نئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس سے اب تک 82000 افراد متاثر ہو چکے ہیں جن میں سے 78000 صرف چین میں ہیں۔ اس وائرس سے اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2800 ہو چکی ہے۔
یہ مرض اب تک پاکستان سمیت دنیا کے 40 ممالک میں پھیل چکا ہے اور اسے عالمی صحت کے حوالے سے ایمرجنسی قرار دیا گیا ہے۔
جیسا کہ یہ وائرس کھانسی کے ذریعہ انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے لہذا یہ ضروری ہے کہ الکوحل سے بنے ہینڈ سینیٹائزر یا گرم پانی اور صابن سے بار بار ہاتھ دھوئیں اور چہرے کو بار بار چھونے سے اجتناب کریں۔
اس کے علاوہ، آپ کو کسی بھی ایسے شخص سے رابطے سے گریز کرنا چاہیے جسے کھانسی، زکام یا بخار کے شکایت ہو۔ جو بھی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ہے اسے فوراً اپنے معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔
بی بی سی نیوز کی ہیلتھ ٹیم نے اس وبا کے متعلق قارئین کے مختلف بنیادی سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

دمہ کے مریضوں کے لیے یہ وائرس کتنا خطرناک ہے؟

سانس کی بیماری کا شکار کرنے والے کورونا وائرس جیسے وائرس سے دمہ کی علامات بڑھ سکتی ہیں۔
دمہ کی بیماری کے حوالے سے برطانوی ادارے ’ایزتھما یو کے‘ ایسے افراد کو جو اس وائرس سے تشویش میں مبتلا ہیں اپنے دمے کی بیماری پر قابو پانے کے لیے چند ہدایات پر عمل کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ ان ہدایات میں ڈاکٹر کا تجویز کردہ انہیلر کا روزانہ استعمال شامل ہے۔
اس سے کورونا وائرس سمیت کسی بھی سانس کے وائرس سے دمہ کے حملے کے خطرے کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اگر آپ کے دمے کی علامات کسی بھی وقت بگڑ جائیں تو فوراً اپنے معالج سے رابطہ کریں۔
کورونا وائرستصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

اگر آپ کے کسی دفتری ساتھی کو کورونا وائرس کی وجہ سے قرنطینہ میں رکھا گیا ہے تو کیا آپ کو بھی قرنطینہ میں رہنا چاہیے؟

اس ضمن میں متعدد اداروں نے کورونا وائرس کے خلاف احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے عملے کو گھر سے کام کرنے کو کہا ہے۔ یہ فیصلہ ان کمپینوں کے چند ملازمین کی متاثرہ ممالک سے واپسی کے بعد ان میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔
لیکن برطانوی ادارے پبلک ہیلتھ انگلینڈ (پی ایچ ای) کا کہنا ہے کہ عملے کو کام سے گھر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ زیادہ تر مشتبہ کیسز کے نتائج منفی نکلتے ہیں۔ برطانوی ادارہ برائے صحت دفتروں کو بند کرنے کی سفارش نہیں کرتا ہے یہاں تک کہ اگر کورونا وائرس کا کوئی تصدیق شدہ کیس بھی ہو۔
برطانوی حکام صرف ان افراد کو خود ساختہ قرنطینہ کا مشورہ دیتے ہیں:
  • جو کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں
  • جن کا تصدیق شدہ متاثرہ افراد کے ساتھ قریبی رابطہ رہا ہو
  • جنھوں نے حال ہی میں متاثرہ ممالک کا دورہ کیا ہو

کیا ایسے افراد جن کو پہلے ہی نمونیا ہو چکا ہے وہ کورونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں؟

یہ نیا کورونا وائرس بہت کم تعداد میں افراد کو نمونیا میں مبتلا کر سکتا ہے۔ صرف ان افراد میں اس کا خطرہ موجود ہے جن کے پھیپھڑے پہلے ہی سے کمزور یا خراب ہوں۔ مگر کیونکہ یہ کورونا وائرس کی ایک نئی قسم ہے اور کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے اس لیے یہ نیا وائرس کسی بھی طرح کی پھیپھڑوں کی بیماری یا نمونیا کا سبب بن سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف ویکسین دستیاب ہونے میں ابھی 18 ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

حاملہ خواتین اگر کورونا وائرس سے متاثر ہو جائیں تو ان کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟

سائنسدانوں کے پاس ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ یہ کہہ سکیں کہ حاملہ خواتین کو اس وائرس سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔
اپنے آپ کو وائرس سے بچانے کے لیے حفظان صحت کے آسان مشوروں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ان میں اکثر اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی سے اچھی طرح دھونا، اپنے چہرے، آنکھوں یا منہ کو گندے ہاتھوں سے نہ چھونا اور بیمار لوگوں سے دور رہنا شامل ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے ہیں، یا کسی ایسے شخص کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں جسے اس وائرس نے متاثر کیا یا کسی ایسے متاثرہ ملک کا سفر کیا ہو تو آپ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ اپنے گھر میں رہیں اور ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔
کورونا وائرستصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

کیا کورونا وائرس فلو سے زیادہ نقصان دہ ہے؟

ابھی ان دونوں بیماری کا براہ راست موازنہ کرنا قبل از وقت ہے لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ دونوں وائرس انتہائی خطرناک ہیں۔
اوسطاً کورونا وائرس سے متاثرہ شخص دو سے تین دیگر افراد کو انفیکشن منتقل کرتے ہیں جبکہ فلو سے متاثرہ افراد اسے قریباً ایک دوسرے شخص تک پہنچاتے ہیں۔
تاہم، فلو سے متاثرہ افراد دوسروں کے لیے زیادہ تیزی سے متعدی ہو جاتے ہیں لہذا دونوں وائرس آسانی سے پھیل سکتے ہیں۔

کیا یہ وائرس جنگلی حیات کے ذریعہ پھیل سکتا ہے؟

اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے مہلک کورونا وائرس جانوروں سے انسانوں میں کیسے منتقل ہوا اور یہ تقریباً یقینی ہے کہ چین میں کورونا وائرس کی ابتدائی وباء کسی جانور کے ذریعہ ہی شروع ہوئی تھی۔ اس نئے انفیکشن کے ابتدائی واقعات کا سراغ جنوبی چین کی سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ سے ملتا ہے، جہاں زندہ جنگلی جانور بھی فروخت ہوئے جن میں مرغی، چمگادڑ اور سانپ شامل ہیں۔
البتہ کوئی جانور اس وائرس کو انسانی میں منتقل کرنے کا ذریعہ نہیں ہو سکتا ہے۔
چین سے باہر رہنے والے افراد کے لیے کسی جانور سے وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ہم اس وقت اس وبا کے مختلف مرحلوں پر ہیں جہاں یہ انسان سے انسان میں پھیل رہا ہے اور یہ ہی اصل خطرہ ہے۔
کورونا وائرستصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

کیا کورونا وائرس کھڑکی اور دروازے کے ہینڈل کو ہاتھ لگانے سے بھی پھیل سکتا ہے ؟

اگر کوئی متاثرہ شخص کھانسی کرتے ہوئے اپنے ہاتھ منھ پر رکھتا ہے اور پھر کسی چیز کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ سطح پر متاثر ہو جاتی ہے۔ دروازے کے ہینڈل اس کی اچھی مثال ہیں جہاں اس وائرس کے ہونے کا امکان ہو سکتے ہیں۔
تاہم اس بات کا ابھی تک علم نہیں ہے کہ یہ نیا کورونا وائرس اس طرح کی سطحوں پر کتنی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی عمر دنوں کی بجائے گھنٹوں میں ہے لیکن یہ بہتر ہے کہ آپ باقاعدگی سے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس سے متاثر ہونے اور پھیلنے کا امکان کم ہو۔

کیا موسم اور درجہ حرارت کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر اثر ڈالتا ہے؟

ہمیں ابھی اس وائرس کے متعلق بہت کچھ جاننا باقی ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ موسمی یا درجہ حرارت میں تبدیلی اس کے پھیلاؤ پر کوئی اثرات مرتب کریں گے یا نہیں۔
چند دیگر وائرس جیسا کے فلو موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ اپنے اثرات مرتب کرتا ہے جیسا کہ موسم سرما میں یہ بڑھ جاتا ہے۔
مارس اور اس طرح کے دیگر وائرس کے متعلق چند تحقیق یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ آب و ہوا کے حالات سے متاثر ہوتے ہیں جو گرم مہینوں میں قدرے زیادہ تیزی سے پھیلتے ہیں۔

کیا آپ متاثرہ شخص کے تیارکردہ کھانے سے اس وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں؟

کورونا وائرستصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
اگر کوئی کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کھانا تیار کردہ ہے اور اس دوران حفظان صحت اور صفائی کا خیال نہیں رکھتا تو ممکنہ طور پر اس سے کوئی اور شخص متاثر ہو سکتا ہے۔ کورونا وائرس کھانسی کے دوران منھ پر ہاتھ رکھنے سے پھیل سکتا ہے اور اگر ایسے میں متاثرہ شخص نے ہاتھ اچھی طرح دھو کر کھانا تیار نہیں کیا تو اس کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ لہذا کھانےکو چھونے اور کھانے سے قبل اچھی طرح ہاتھ دھوئیں تاکہ اس کے جراثیم کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

اگر آپ ایک مرتبہ کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں تو کیا اس وائرس کے خلاف آپ کی مدافعت بڑھ جاتی ہیں؟

جب لوگ کسی انفیکشن یا بیماری سے صحت یاب ہوجاتے ہیں تو ان کے جسم میں اس بیماری سے دوبارہ لڑنے کی کچھ یادداشت رہ جاتی ہے۔ تاہم یہ مدافعاتی عمل ہمیشہ دیرپا یا مکمل طور پر موثر نہیں ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کمی بھی آسکتی ہے۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ انفیکشن کے بعد یہ مدافعت کب تک چل سکتی ہے۔
کیا چہرے کا ماسک وائرس کے خلاف کارآمد ہے اور اسے کتنی مدت بعد تبدیل کرناچاہیے؟
کورونا وائرستصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
اس بارے میں بہت کم شواہد موجود ہیں کہ چہرے کے ماسک پہننے سے فرق پڑتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اپنے منھ کے قریب ہاتھ لے جانے سے قبل یہ زیادہ موثر ہے اچھی حفظان صحت کے تحت آپ باقاعدگی سے اپنے ہاتھ دھوئیں۔

کیا کورونا وائرس جنسی طور پر منتقل ہو سکتا ہے؟

یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا یہ بھی وائرس منتقلی کا ایک ذریعہ ہے یا نہیں جس کے بارے میں ہمیں فکر مند ہونا چاہئے۔ فی الحال، اس وائرس کے پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ کھانسی اور چھینکوں کو سمجھا جاتا ہے۔
کیا کورونا وائرس سے متاثرہ شخص مکمل صحت یاب ہوا ہے؟
جی ہاں. بہت سے ایسے افراد جو کوروناوائرس سے متاثر ہوئے اور ان میں بیماری کے معمولی علامات ظاہر ہوئی ان میں سے زیادہ تر افراد کی مکمل صحت یابی کی توقع کی جاتی ہے۔
تاہم، بزرگ افراد جنھیں پہلے سے ذیابیطس، کینسر یا کمزور مدافعتی نظام جیسی بیماریاں لاحق ہیں ان کے لیے یہ ایک خاص خطرہ بن سکتا ہے۔
چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ایک ماہر کا کہنا ہے کورونا وائرس کے معمولی علامات سے ٹھیک ہونے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔

کیا کورونا وائرس ووہان سے خریدی گئی اور دیگر ممالک میں بذریعہ ڈاک بھیجی گئیں اشیا کے ذریعہ منتقل ہو سکتا ہے؟

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس کا کوئی خطرہ ہے۔ کورونا وائرس سمیت کچھ بیماریاں ان سطحوں سے پھیل سکتی ہیں جہاں ان کے متاثرہ افراد کے کھانسی یا چھینکنے کے بعد چھوا ہو، لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس زیادہ دن زندہ نہیں رہتا ہے۔ کچھ بھی جو بذریعہ ڈاک بھیجا گیا ہے اس کے منزل مقصود تک پہنچنے تک اس سے آلودہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔

کیا سانس کی اس بیماری سے بچنے کے لیے ویکسینیشن کروانا ممکن ہے؟

اس وقت اس وائرس سے بچاؤ کی کوئی ویکسین موجود نہیں ہے جو لوگوں کو اس قسم کے کورونا وائرس سے بچا سکے لیکن محققین اس کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ ایک نئی بیماری ہے جو انسانوں میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ جس کا مطلب ہے کہ ڈاکٹروں کے پاس اس کے بارے میں جاننے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ ہے۔

Thursday 13 February 2020

Vivo Y95/Y93/Y91/V9/V11 Format QFIL Tool/ Without Box New Method 100% Done


video link


Password= Vivo_Y95_Oye_2019


Vivo Y95 (PD1818F)

File link



Password= Vivo_Y91_Y93_Y95_V11_2019 PD1818EF

File Link

Password= bidari cell PD1818BF_EX
File Link

VIVO V9
File link

VIVO Y91 & Y95
File link

Qualcomm -USB Driver
File link

QPST Flash Tool
File link


FRP Bypass
Video Link


Sunday 9 February 2020

کیا سائنسدان کورونا وائرس کے علاج کے لیے کم وقت میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ویکسین ایجاد کر پائیں گے؟

جیسے جیسے کورونا وائرس سے متاثر افراد دنیا کے مختلف ملکوں میں سامنے آ رہے ہیں، اس نئے وائرس کے خلاف ویکسین بنانے کی دوڑ تیز تر ہوتی جا رہی ہے اور یوں ماہرین میڈیکل ٹیکنالوجی کی حدود کو بھی پیچھے دھکیل رہے ہیں۔
اب دنیا کے کئی ممالک میں حکومتیں، تحقیقی ادارے، دوا ساز کمپنیاں اور مالی امداد فراہم کرنے والی تنظیمیں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے دھڑا دھڑ پیسہ بھی لگا رہے ہیں اور دیگر وسائل بھی۔

یہ بھی پڑھیے

عام طور پر کسی ویکسین کو بنانے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں، لیکن جدید ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اب یہ کام حیرت انگیز طور پر کم وقت میں کیا جا سکتا ہے۔
اس حوالےسے ہم یہاں چار چیزوں کا ذکر کر رہے ہیں جو کم سے کم وقت میں ویکسین بنانے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔

’مالیکیولر کلیمپ‘

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف کوئینزلینڈ میں ایک نئی ویکسین پر ’بے مثال تیزی‘ سے کام ہو رہا ہے جس میں ایک ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے جو یونیورسٹی کے اپنے ماہرین نے بنائی ہے۔ اسے مالیکیولر کلیمپ‘ یا شکنجہ‘ کہا جاتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنسدان اب وائرس کی بیرونی سطح پر پروٹینز کی جگہ ایک ایسا عمل کر سکتے ہیں جس سے ہمارے جسم کا دفاعی نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔
تصویرتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionاس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنسدان اب وائرس کی بیرونی سطح پر پروٹینز کی جگہ ایک ایسا عمل کر سکتے ہیں جس سے ہمارے جسم کا دفاعی نظام حرکت میں ا جاتا ہے
یونیورسٹی کے سکول آف کیمسٹری اینڈ مالیکیولر بائیو سائنس کے سربراہ پروفیسر پال ینگ بتاتے ہیں کہ ’عام طور پر کسی بھی ویکسین میں جو پروٹین پائے جاتے ہیں وہ غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے اکثر ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں یا ان کی ساخت اتنی تبدیل ہو جاتی ہے کہ ان سے جسم میں درست اینٹی باڈیز نہیں پیدا ہو پاتیں۔‘
مالیکیولر شکنجہ کرتا یہ ہے کہ ان پرویٹینز کی ساخت کو قابو میں رکھتا جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب ہمیں کوئی انفیکشن ہوتی ہے تو ہمارا مدافعتی نظام مذکورہ پروٹینز کی درست شناخت کر لیتا ہے اور یوں اس کے خلاف کام شروع کر دیتا ہے۔
پروفیسر ینگ کا خیال ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ویکسین صرف چھ ماہ کے اندر اندر تیار ہو جائے گی جس کے بعد اسے ٹیسٹ کیا جا سکے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ویکسین بنانے میں اتنا کم وقت لگنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چینی حکام نے کورونا وائرس کا جنیٹک کوڈ فوراً دنیا کو بتا دیا تھا۔

’بے مثال تیزی‘

روایتی طور پر کسی بھی مرض سے بچاؤ کی ویکسین بنانے کے لیے وائرس یا بیکٹیریا کو کمزور شکل میں استعمال کیا جاتا ہے، یعنی اس پر ایسے کیمیائی عمل کیے جاتے ہیں جس سے اس میں بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اب جنیٹک کوڈ کو استعمال کر کے وائرس کے ڈی این اے کے کچھ حصوں کو الگ کیا جا سکتا ہے۔ یوں ویکسین بنانے کے لیے درکار وقت حیرت انگیز طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ چین نے کورونا وائرس کی شناخت ہونے کے تین دن بعد ہی، 10 جنوری کو اس کا جنیٹِک کوڈ اور دیگر معلومات انٹرنیٹ پر چڑھا دیں تھیں، جس کے بعد دنیا بھر کے ماہرین کے لیے ویکسیسن کی تیاری پر جلد ازجلد کام کرنا ممکن ہو گیا۔ کورونا وائرس کو 2019-nCoV کا نام دیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف کویئن لینڈ میں جو تحقیق ہو رہی ہے، اس کی مالی معاونت متعددی امراض سے پچاؤ کے لیے کام کرنی والا ایک گروپ (سی ای پی آئی) کر رہا ہے جسے دنیا بھر کی کئی حکومتیں اور فلاحی نتظیمیں فنڈز فراہم کرتی ہیں۔
اس گروپ نے دنیا کی تمام تنظیموں اور اداروں سے اپیل کی ہے کہ اگر ان کے پاس ویکسین بنانے والی کوئی ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جو کورونا وائرس کو مقابلہ کرنے میں مدد کر سکتی ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ مالی امداد کے لیے درخواست بھیجیں تا کہ گروپ انہیں پیسے دے سکے۔
تصویر
Image captionپروفیسر ینگ کا خیال ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ویکسین صرف چھ ماہ کے اندر اندر تیار ہو جائے گی جس کے بعد اسے ٹیسٹ کیا جا سکے گا
سی ای پی آئی اور دنیا کی مشہور دواساز کمپنی ’جی ایس کے‘ نے اعلان کیا ہے کہ وہ دونوں مل کر ایڈجووینٹ نامی کیمائی ایجنٹ استعمال کرنے جا رہے ہیں جو وائرس اور بیکٹیریا کے خلاف ہماری مدافعت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ جب اس ایجنٹ کو کسی ویکسین میں ملایا جاتا ہے تو اس سے جسم کا دفاعی نظام کسی انفیکشن سے زیادہ بہتر انداز میں اور زیادہ دیر تک لڑ کر سکتا ہے۔
ایس کے ایف کا کہنا ہے کہ ’اگر کوئی مرض عالمی سطح پر پھیل جاتا ہے تو ایڈجووینٹ کی اہمیت خاص طور پر بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کی بدولت ہم ویکسین بنانے والے اینٹی جِن کی تھوڑی سی مقدار سے بہت سی ویکسین بناسکتے ہیں۔‘
یہ ایڈجووینٹ اس سے پہلے سوائین فُلو اور برڈ فُلو کی وبا کے دنوں میں بھی استعمال کیا گیا تھا۔

جنیٹِک سوفٹ ویئر کوڈِنگ

امریکی کپمنی موڈرنا اور جرمنی کی کمپنی ’کِیور ویک‘ ویکسین بنانے کے لیے ایک مختلف ٹیکنالوجی استعمال کر رہی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی ’میسنجر آر این اے‘ کہلانے والے مالیکیولز پر کام کرتی ہے جو جسم کو بتاتے ہیں کہ وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے خود اپنا دفاعی نظام کیسے بنا سکتا ہے۔
اگر آپ تصور کریں کہ ڈی این اے ایک قسم کی یو ایس بی سِٹک ہے، تو آر این اے اس رِیڈر کا کام کرتا ہے جو ڈی این اے میں موجود ڈیٹا کو پڑھتا ہے۔
یوں جب جسم کے خلیوں کو کسی قسم کی پروٹین پیدا کرنا ہوتی ہے تو آر این اے ہی وہ چیز ہے جو ڈی این اے میں پوشیدہ معلومات جسم میں موجود ان ’فیکٹریوں‘ تک پہنچاتا ہے جو پروٹینز پیدا کرتی ہیں۔
جرمن کمپنی آر این اے کی مدد سے کئی امراض کی ویکسین بنا رہی ہے۔
تصویرتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption'اگر کوئی مرض عالمی سطح پر پھیل جاتا ہے تو ایڈجووینٹ کی اہمیت خاص طور پر بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کی بدولت ہم ویکسین بنانے والے اینٹی جِن کی تھوڑی سی مقدار سے بہت سی ویکسین بناسکتے ہیں'
کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹِلمن رڑوز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے خلیوں کو جسم کے دفاعی نظام کو بڑھانے میں محض ایک دو گھنٹے لگتے ہیں۔
ان کے بقول کورونا وائرس کے خلاف ویکسین ’اگلے چند ہی ماہ‘ میں اس قابل ہو جائے گی کہ اسے محدود پیمانے پر ٹیسٹ کیا جا سکے گا۔
تاہم اس حوالے سے سب سے زیادہ متاثر کن بات یہ ہے کہ کمپنی ایک ایسا ’آر این اے پرنٹر‘ بنا رہی ہے جسے اس جگہ لے جایا جا سکے گا جہاں اس کی ضرورت ہو۔ یہ ایم آر این اے فراہم کر کے موقع پر ویکسین کی پیداوار بڑھانے میں مدد کرے گا۔
آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال میساچوسٹس میں موڈرنا انک نامی کمپنی میں بھی ہو رہا ہے جس کی مالی اعانت سی ای پی آئی اور امریکہ کا قومی ادارہ برائے الرجی اور وبائی امراض کرتا ہے۔
اس حوالے سے انسانوں پر تجربہ تو اگلے تین ماہ میں ہو جائے گا تاہم موڈرنا کے سربارہ سٹیفین بانسل نے خبردار کیا کہ ’کوئی بھی موسمِ سرما تک ( عام استعمال کے قابل) ویکسین بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے گا۔‘

وائرس کی کمزوری پر حملہ کرنا

سان ڈیئیگو کی انوویو لیب میں سائنسدان ویکسین بنانے کے لیے ایک نئی قسم کی ڈی این اے ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں اور وہ موسمِ سرما کے آغاز میں اسے انسانوں پر آزمانا چاہتے ہیں۔
انوویو میں تحقیق اور تخلیق کے محکمے کی سینیئر نائب صدر کیٹ براڈرک کا کہنا ہے کہ ’ہماری ڈی این اے کی مدد سے بنائی گئی ویکسینز اس لیے منفرد ہیں کیونکہ یہ وائرس سے ڈی این اے کی ترتیب کا استعمال کرتے ہوئے اس کے ایسے حصوں کو نشانہ بنائیں گی جن کو انسانی جسم کی جانب سے بھی سخت ردِ عمل کا سامنا ہو۔‘
’ہم پھر مریضوں کے اپنے خلیوں کو ویکسین کے لیے فیکٹری بنا دیتے ہیں جس سے جسم کا اس وائرس سے لڑنے کا قدرتی نظام مضبوط ہو جاتا ہے۔‘
تصویرتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionخبر رساں آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال میساچوسٹس میں موڈرنا انک نامی کمپنی میں بھی ہو رہا ہے جسے سی ای پی آئی اور امریکہ کے قومی انسٹیٹیوٹ برائے الرجی اور وبائی امراض امداد دیتے ہیں
انوویو کا کہنا ہے کہ اگر آغاز میں کیے گئے تجربے کامیاب رہے تو اسے ’اس سال کے آخر میں‘ بڑے پیمانے پر چین میں آزمایا جا سکے گا۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے ذیکا وائرس سے نمٹنے کے لیے سات ماہ میں ویکسین ایجاد کر لی تھی۔
انوویو کے سربراہ جوزف کم کے بقول 'ہم سمجھتے ہیں کہ ہم چین میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے مزید تیزی سے ویکسین تیار کر سکتے ہیں۔'

عالمی کوششیں

یہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کی جانی والی تحقیق کی کچھ مثالیں ہیں۔ دنیا بھر میں برطانیہ سے جاپان اور چین میں بھی ادارے اس کا علاج تلاش کر رہے ہیں۔
مثلاً، آسٹریلیا کی قومی سائنس ایجنسی سی ایس آئی آر او میں اس بات پر تحقیق ہو رہی ہے کہ وائرس کی تخلیق اور نقل بننے میں کتنا وقت لگتا ہے، اس کا ہمارے پھیپھڑوں پر کیا اثر پڑتا ہے اور یہ وبا پھیلتی کیسے ہے۔
فرانس کے پاسچر انسٹیٹیوٹ نے اس حوالے سے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے جو اس کورونا وائرس کو سمجھ سکے، ایک ویکسین تیار کر سکے اور اس وبا کی تشخیص اور اسے کنٹرول کرنے کے مختلف طریقے وضع کر سکے۔
تاہم اگر یہ ویکسین انتہائی کم وقت میں بھی بنا دی گئی تو بھی شاید حالیہ وبا اس وقت تک ختم ہو چکی ہو لیکن امریکہ میں نوواویکس لیب میں ہونے والی تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر گریگوری گلین کا کہنا ہے کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حالیہ کوششیں رائیگاں جائیں گی۔
ڈاکٹر گلین نے صحافیوں کو بتایا کہ 'کورونا وائرس ایک وبا کے دوران تبدیل بھی ہو سکتا ہے اس لیے اس کی ویکسین بنانا انتہائی ضروری ہے۔'

Subscribe Us